یاد اور چاند غزل


 یاد اور چاند 

اُس کی یاد سے نکلوں تو آخر جاؤں کہاں؟

ماہ و خُورشید بھی یہیں ہے ستارے بھی یہیں ہیں

اُس کو بھلا کے آخر جاؤں تو جاؤں کہاں؟

دریا بھی یہیں ہیں کہکشاں بھی یہیں ہے

یہ مَاہ و مِہر کب تجھے بھولنے دیتے ہیں ساقی ؟

 اب میں جاؤں تو جاؤں کہاں؟ 

وہ مہرباں بھی تو اسی آسماں تلے رہتے ہوں گے 

اب اس آسماں سے چھپ کر میں جاؤں کہاں؟ 

وہ شخصِ زیبا بھی اسی چاندنی رات میں چمکتے ہوں گے

اب اس چاندنی رات سے چھپ کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟ مسلہ تو رات کا ہے تیرے بغیر، دن کا تو مسلہ ہے ہی نہیں 

اے حَسین نقشِ کفِ پا میں جاؤں تو جاؤں کہاں؟ 

تمہارا نام لیتے ہی فضاؤں میں گلاب کی خوشبو مہکتی ہے

ان ہواؤں میں سَرما کی تخیل محسوس ہوتی ہے

تمہارا نام لب پے آتے ہی آسماں کِھل اٹھنا ہے پرندے چہکنے لگتے ہیں بادل بولنے لگتے ہیں سورج چمکنے لگتا ہے تیرا نام ہی اتنے خوبصورت کلمات سے تکمیل کیا گیا ہے تو تیری دید کیسی ہوگی ؟ ان خوبصورت بہاروں کی تخیل سے نکل کر میں جاؤں تو جاؤں کہاں؟

تمہاری یاد سے نکل کر بھی مجھے یہ چاند ستارے تمہارا عکس نہیں بھولنے دیتے تمہارے گیت گا کر میں جاؤں تو جاؤں کہاں؟

اس کی یاد سے نکلوں تو جاؤں کہاں چاند بھی یہیں ہے ستارے بھی یہیں ہیں... 


سلمہ writer

Post a Comment

0 Comments